Home Blog Page 4

بے پردہ عورت پر اللہ کا عذاب

0
waqiat

بے پردہ عورت پر اللہ کا عذاب

جیسا کہ ہم نے اکثر سنا کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں شخص زندہ ہو گیا۔ اس نے مرنے کے بعد کا حال سنایا اور پھر مر گیا۔ اسی قسم کا عذاب قبر سے متعلق ایک واقعہ گلگت میں پیش آیا۔ جس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک شخص قبرستان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے کسی قبر سے یہ آواز سنی کہ مجھے نکالو میں زندہ ہوں۔ جب ایک دو مرتبہ اس نے آواز سنی تو اس نے یہ سمجھا کہ یہ میرا وہم ہے۔

لیکن جب مسلسل اس نے یہ آواز سنی تو اس کو یقین ہونے لگا۔ چنانچہ قریب میں ایک بستی تھی۔ وہ شخص اس میں آیا اور لوگوں کو اس آواز کے بارے میں بتا کر کہا کہ تم بھی چلو اور اس آواز کو سنو۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے ساتھ آئے۔ انہوں نے بھی یہی آواز سنی اور سب نے یقین کر لیا کہ واقعی یہ آواز قبر سے آ رہی ہے۔

اب یقین ہونے کے بعد ان لوگوں کو مسئلہ پوچھنے کی فکر ہوئی کہ پہلے علماء سے یہ مسئلہ معلوم کرو کہ قبر کھولنا جائز ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس طرح قبر سے آواز آ رہی ہے۔ اور میت یہ کہہ رہی ہے کہ مجھے قبر سے باہر نکالو میں زندہ ہوں۔

اس پر امام صاحب نے فرمایا اگر تمہیں اس کے زندہ ہونے کا یقین ہو گیا ہے تو قبر کو کھول لو اور اس کو باہر نکال لو۔ چنانچہ یہ لوگ ہمت کر کے قبرستان گئے اور جا کر قبر کھولی۔ اب جونہی تختہ ہٹایا تو دیکھا اندر ایک عورت برہنہ حالت میں بیٹھی ہوئی ہے اور اس کا کفن گل چکا ہے۔ پھر لوگوں نے کہ وہ عورت کہہ رہی ہے۔ جلدی سے میرے گھر سے میرے کپڑے لاؤ میں کپڑے پہن کر باہر نکلوں گی۔

چنانچہ یہ لوگ فورا دوڑ کر اس کے گھر گئے اور جا کر اس کے گھر والوں کو یہ واقعہ بتایا۔ اس کے کپڑے چادر وغیرہ لے کر آئے اور لا کر کے اندر پھینک دیے اس عورت نے ان کپڑوں کو پہنا اور چادر اپنے اوپر ڈالی۔ پھر تیزی سے بجلی کی طرح اپنے قبر سے نکلی اور دوڑتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔ گھر جا کر اس عورت نے ایک کمرے میں چھپ کر اندر سے کنڈی لگا لی۔

اب جو لوگ قبرستان آئے تھے دوڑ کر اس کے گھر پہنچے۔ ان کو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس نے اپنے کمرے کے اندر سے کنڈی لگا رکھی ہے۔ ان لوگوں نے دستک دی کہ کنڈی کھولو۔ اندر سے اس عورت نے جواب دیا میں کنڈی تو کھول دوں گی لیکن کمرے کے اندر وہ شخص داخل ہو جس کے اندر مجھے دیکھنے کی تاب ہو۔ اس لیے کہ اس وقت میری حالت ایسی ہے کہ ہر آدمی مجھے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گا۔

لہذا کوئی دل گردے والا شخص اندر آئے اور آ کر میری حالت دیکھے۔ اب سب لوگ اندر جانے سے ڈر رہے تھے مگر دو چار آدمی جو مضبوط دل والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم کنڈی کھولو ہم اندر آئیں گے۔ اس نے کنڈی کھول دی اور کچھ لوگ اندر چلے گئے۔

لوگوں نے اندر جاکر دیکھا وہ عورت اپنے آپ کو چادر میں چھپائے بیٹھی ہوئی تھی۔ جب یہ لوگ اندر پہنچے تو اس عورت نے سب سے پہلے اپنا سر کھولا۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سر پر ایک بھی بال نہیں وہ بالکل خالی کھوپڑی ہے۔ نہ اس پر بال ہیں نہ کھال ہے۔ صرف خالی ہڈی ہڈی ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا تیرے بال کہاں گئے؟

اس عورت نے جواب دیا کہ جب میں زندہ تھی تو ننگے سر گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ پھر مرنے کے بعد جب میں قبر میں لائی گئی۔ تو فرشتوں نے میرا ایک ایک بال نوچا اور اس نوچنے کے نتیجے میں بال کے ساتھ کھال بھی نکل گئی۔ اب میرے سر پر نہ بال ہیں نہ کھال ہیں۔

اس کے بعد اس عورت نے اپنا منہ سے کپڑا ہٹایا۔ جب لوگوں نے اس کا منہ دیکھا تو اتنا خوفناک ہو چکا تھا کہ سوائے دانتوں کے کچھ نظر نہیں آیا نہ اوپر کا ہونٹ موجود تھا نہ نیچے کا ہونٹ موجود تھا۔ بلکہ بتیس کے بتیس دانت سامنے جڑے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ سوچیے اگر کسی انسان کے صرف دانت ہی دانت نظر آئے۔ تو کتنا ڈر اور خوف معلوم ہوتا ہے۔ اب ان لوگوں نے اس عورت سے پوچھا تیرے ہونٹ کہاں گئے۔

اس عورت نے جواب دیا میں اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا کر نامحرم مردوں کے سامنے جایا کرتی تھی۔ اس کی سزا میں میرے ہونٹ کاٹ لیے گئے۔ اس لیے اب میرے چہرے پر ہونٹ نہیں ہیں۔

پھر اس عورت نے اپنے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں کھولی لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں میں ایک بھی ناخن نہیں تھا۔ تمام انگلیوں کے ناخن غائب تھے۔ اس سے پوچھا تیری انگلیوں کے ناخن کہاں گئے۔ اس عورت نے جواب دیا ناخن پالش لگانے کی وجہ سے میرا ایک ایک ناخن کھینچ لیا گیا۔ چونکہ میں یہ سارے کام کر کے گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی میں مرنے کے بعد قبر میں پہنچی تو میرے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا۔ اور مجھے یہ سزا ملی کہ میرے سر کے بال بھی نوچ دیے گئے، میرے ہونٹ بھی کاٹ دیے گئے اور ناخن بھی کھینچ لیے گئے۔

اتنی باتیں کرنے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی اور مردہ بے جان ہو گئی جیسے لاش ہوتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ اس کو قبرستان میں پہنچا دیا۔

محترم خواتین و حضرات اللہ تعالی کو یہ عبرت دکھانی مقصود تھی کہ دیکھو اس عورت کا کیا انجام ہوا اور اس کو کتنا ہولناک عذاب دیا گیا۔ بے پردہ خواتین اس واقعے سے عبرت لے اور ان گناہوں سے توبہ کرے جس کی سزا بروز قیامت بہت سخت ہے۔

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

1
waqiat

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے۔

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

0
waqiat

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔

چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔

جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔

ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔

لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔

پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔

تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔

حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔

جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔

اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔

جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔

Jumma Mubarak Quotes in Urdu

1

What does “Jumma Mubarak Quotes in Urdu” meaning ?

“Jumma Mubarak Quotes in Urdu” means messages or well-wishes written in the Urdu language, specifically for Jumma, the Friday prayer in Islam. In Islam, Friday is considered a blessed and special day.

“Jumma Mubarak” means “Blessed Friday.”
– Quotes refer to meaningful or uplifting sayings.
– In Urdu means that these quotes are written or spoken in the Urdu language.

These quotes are often shared to greet others on Fridays, offering blessings, prayers, or Islamic teachings. People typically share them through text messages, on social media, or other platforms to spread positivity and good wishes.

Jumma Mubarak

نماز کے لئے دنیا چھوڑ دو”

“لیکن دنیا کے لئے نماز نہ چھوڑو

“اے اللہ”

تیرا اور میرا تعلق ہمیشہ برقرار رکھنا “

“!..دور رکھ مجھے ہر اس چیز سے جو تیری یاد سے غافل کردے

 ! جمعہ مبارک

“جو چیز اللہ نہ دے اسے بندوں سے نہیں مانگنا چاہیے”

 ! جمعہ مبارک

اللہ کی قربت کا بہترین راستہ عاجزی ہے “

” ایک میٹھا بول خیرات سے بہتر ہے

 ! جمعہ مبارک

تقدیر سے لڑنے کی بجائے تقدیر بنانے والے سے “

” دوستی کرلی جائے تو بن مانگے سب ملی گا

 ! جمعہ مبارک

امید جب اللہ پاک سے لگی ہو “

” تو دل ٹوٹنے کا امکان نہیں ہوتا

 ! جمعہ مبارک

یوں تو رحمت تیری غضب پر ہاوی “

” پھر بھی محشر میں خدایا میرا پردہ رکھنا

 ! جمعہ مبارک

” جب رب نوازتا ہے تو سارے خسارے خاک میں مل جاتے ہیں “

 ! جمعہ مبارک

” قسمت اور تقدیر سے زیادہ طاقت دعا میں ہوتی ہے “

 ” وہ رب کن کہتا ہے اور تمہارے آنسو سکوں بن جاتے ہیں “

دنیا میں سب سے زیادہ مطمئن وہ لوگ ہیں جنہیں “

 “اپنے معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے’کی عادت ہو

اگر وہ تمہاری دعائیں نہیں بدل رہا “

 “تو جان لو کہ اس نے اب قبولیت کا ارادہ کر لیا ہے

اللہ سے مانگو ، پھر مانگو اور مانگتے ہی رہو “

” وہ دے گا ، وہ ہے دیگا کیونکہ وہی دے سکتا ہے

پھر میں وہ کرتا گیا جو رب چاہتا ہے “

 “پھر ہوتا وہ گیا جو میں چاہتا گیا

اے میرے اللہ پاک

“تیرا در ہو، میرا سر ہو ، اور یہ رابطہ عمر بھر ہو “

جن کے حصے میں رب آ جائے “

 ” انہیں لوگوں اور دنیا سے کوئی شکوہ نہیں ہوتا

جمعة المبارک

 “ساتھ صرف رب دیتا ہے سری برائیاں جان کر بھی  “

جمعة المبارک

!..تیرے حرم کی کیا بات مولا

!..تا عمر کر دے میرا آنا مقدر

جمعة المبارک

جو دیر ہو رہی ہے وہ “

” الله کی خیر بھی تو ہو سکتی ہے

جمعہ کی دعائیں، فرشتوں کی تحریر میں”

“داخل ہوتی ہیں، نجات کا ذریعہ بنتی ہیں۔

 

The day of Jumma is one of the biggest blessings of Allah. Muslim celebrate this day as Eid day. For this, they send wishes quotes to their family or friends. If you’re one of them and looking for Jumma Mubarak quotes in Urdu. Then you are on the right site because here we’re bringing you an extensive range of Jumma Mubarak quotes.

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ

ترجمہ: سو تم مجھے یاد کرو۔ میں تمہیں یاد کیا کروں گا۔ اور میرے احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔

jumma mubarak quotes in urdu

Jumma Mubarak Dua In Urdu 2024

جمعہ المبارک

اے ہمارے پروردگار! اس مبارک دن کے صدقے ہم سب کی مالی مشکلات کو دور فرما اور ہمیں دین حق پر چلنے والا بنا۔ آمین

 

 

 

 

Nature Quotes

0
Nature Quotes

What does the phrase “Nature Quotes” meaning ?

The phrase “Nature Quotes” refers to statements or sayings that reflect on or are inspired by nature—the world around us, including the land, plants, animals, weather, and all other natural elements. These quotes often express thoughts or feelings about the beauty, peace, and wisdom that nature offers. They might be poetic, philosophical, or motivational, and they are often used to share deeper insights about life and the lessons that nature can teach us.

Nature quotes may explore subjects like the power of the ocean, the majesty of mountains, the calmness of forests, or the way nature mirrors human life, growth, and change. Such quotes are meant to inspire awe and gratitude for the environment and encourage people to reconnect with the natural world.

Nature Quotes

“قدرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جو کچھ ہم نے کھو دیا ہے، وہ اگر صبر کریں تو واپس مل سکتا ہے۔”

“قدرت کی خوبصورتی ہمیں یہ یاد دلاتی ہے کہ زندگی کی اصل خوشی سادگی میں ہے۔”

“جب ہم قدرت کے قریب ہوتے ہیں، تو ہم خود کو بہتر سمجھ پاتے ہیں۔”

“قدرت کی سکون دہی ہماری روح کو سکون بخشتی ہے۔”

“قدرت کبھی نہیں دوڑتی، اور نہ ہی دیر کرتی ہے، وہ ہمیشہ اپنے وقت پر سب کچھ کرتی ہے۔”

“قدرت کا سب سے بڑا تحفہ یہ ہے کہ وہ ہمیں زندگی کو محسوس کرنے کا موقع دیتی ہے۔”

“سورج کی کرنوں میں چھپی ایک نئی صبح کی کہانی ہے—ہر دن ایک نئی شروعات ہے۔”

“ایک درخت جتنا پرسکون رہتا ہے، اتنا ہی وہ دوسروں کو سایہ فراہم کرتا ہے۔”

“قدرت میں جو کچھ بھی ہے، وہ زندگی کے سب سے اہم سبق کو سکھاتا ہے — تبدیلی۔”

“آسمان کی وسعت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہماری حدود صرف ہمارے ذہن تک محدود ہیں۔”

“قدرت کا ہر منظر ایک نظم کی طرح ہوتا ہے، بس ہمیں اسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔”

“چاندنی رات کی سب سے خوبصورت خاموشی ہوتی ہے۔”

“سادہ پھولوں میں بھی عظمت چھپی ہوتی ہے، اگر ہم دل سے دیکھیں۔”

“جنگل کی خاموشی میں ایسا کچھ ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔”

“قدرت کی ہر حرکت ہمیں ایک نیا پیغام دیتی ہے، بس ہمیں سننے کی ضرورت ہے۔”

پہاڑوں کی بلندیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ ہمیں زندگی میں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بلند حوصلہ رکھنا چاہیے۔

“ہر صبح کا سورج یہ پیغام دیتا ہے کہ آج کا دن ایک نیا موقع ہے۔”

“ہوا کی سرسراہٹ میں چھپی ہر بات دل کو سکون دیتی ہے۔”

“قدرت کی سادگی میں ہی اس کی اصل عظمت ہے۔”

“دھند میں پوشیدہ منظر بھی اپنی ایک منفرد جمالیات رکھتے ہیں۔”

“آسمان کی نیلاہٹ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر بندش کے بعد آزادی کا ایک لمحہ آتا ہے۔”

“جب آپ قدرت میں ہوتے ہیں، تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کی تمام پریشانیاں محض لمحاتی ہیں۔”

“زمین کے ہر گوشے میں ایک کہانی چھپی ہوتی ہے، بس ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔”

“سمندر کی لہریں ہمیں سکھاتی ہیں کہ زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔”

قدرت ہمیں بتاتی ہے کہ ہر وقت کی اپنی جگہ اور اہمیت ہے، ہمیں بس اسے اپنی زندگی میں محسوس کرنا سیکھنا ہے۔

 

Sad Quotes

2
Sad Quotes

What does the phrase “Sad Quotes” meaning ?

“Sad Quotes” are heartfelt statements that express deep feelings of sorrow, melancholy, and heartache. These quotes often resonate with individuals who are going through emotional pain or loss, providing a sense of connection and understanding. They can come from literature, music, movies, or personal experiences, capturing the essence of sadness in just a few powerful words.

For many, sad quotes serve as a source of comfort, offering the reassurance that they are not alone in their feelings and that others have experienced similar emotions. These quotes not only evoke empathy but also provide emotional relief to those struggling with grief or sadness.

In short, sad quotes are emotional and poignant expressions that speak to the heart, offering comfort and understanding to those facing emotional struggles.

Sad Quotes

مجھے ڈھونڈنے کی کوشش اب نہ کیا کر تو نے راستہ بدلا تو میں نے منزل بدل لی

بڑے بے حس لوگ ہیں تیری کائنات میں مولا

میں درد لکھتا ہوں، واہ واہ کرتے ہیں

بے وفاہی کی سب کتابوں میں

تیرے جیسی کوئی مثال نہیں

قسمت ساتھ نہیں دیتی بلکل تیرے جیسی ہے 

ان فاصلوں کے پیچھے سب فیصلے تمہارے تھے

“I break my own heart by caring too much”

! اس اہمیت کا کیا کرنا جو منتوں سے ملے

!..بیزار ہے دل ہر چیز سے

قافلے سے بھروسہ اٹھانا پڑا

اپنا راستہ مجھے خود بنانا پڑا

میں ہنستا ہوں تو خوش وہ بھی ہوتا ہے

تذکرہ آئینے کا کر رہا ہوںانسان کا نہیں

خوشی جلدی میں تھی رکی نہیں

غم فرصت میں تھے ٹھہر گئے

اکثر ہم اتنے اہم نہیں ہوتے جتنا گمان کرلیتے ہیں

میرا دل نہیں لگتا اب کہیں بھی

ایسا لگتا ہے جیسے موت آنے والی ہو

اللہ نے مرنا حرام رکھا ہے اور لوگوں نے جینا

اک شور تھا ، چند لوگ تھے ، کچھ وقت تھا

! پرکھا سب نے مگر سمجھا کسی نے نہیں

کیا پتہ ،کب ،کہاں،کیا ، آخری ہو

کچھ ادھوری خواہشوں کا سسلہ ہے زندگی

جب جواب ہی مختصر ملنے لگ جایئں

پھر باتیں بھی ختم ہو جایا کرتی ہیں

اور سکوں ایسا ہے کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

کتابوں کے علاوہ جو چیز سبق دیتی ہے وہ زندگی ہے

مجھے میری ہی یاد آتی ہے

میں کہاں تھی اور کیا ہو گئی

محبّت لاکھ قیمتی سہی مگر عزت انمول ہوتی ہے

! سب ہی تو بدل گئے اب اپنا بھی حق بنتا ہے

! لوگ حاصل کر لیتے ہیں ، مگر قدر نہیں کرتے

What does the phrase “Deep Quotes” meaning ?

2
What does the phrase “Deep Quotes” meaning ?

Deep Quotes” refers to meaningful and thought-provoking statements that explore complex ideas and emotions. These quotes often touch on topics like life, love, existence, and the human experience, encouraging people to reflect and think deeply about their own beliefs and values. Deep quotes are designed to inspire introspection and often leave a lasting impression.

Such quotes can be found in literature, philosophy, or the words of great thinkers and writers, and they have a unique ability to connect with people on a personal level.

Deep Quotes

Wafa Honi chahiye insan mein husan tu ek din dhal e jaty hain

DEEP QUOTES

Kyun darein zindagi mein kia hoga,

kuch na hoga tu tajurba hoga..!!

Deep Quotes

“Believe in new beginnings..!”

Quote Sparks

Your Peace is worth more..!!

Quote Sparks

Trust your journey.

One day or Day One

you decide.

Deep Quotes - Quote Sparks

Life is full of sudden Goodbyes..!!

Everyone change, Now it’s mine time..!!

Accepting the situation is the best way to move on..!!

“The strong must learn to be lonely”

Asli maza Manzil ka nahi

Safar ka hota hy dost..!

 Or phr kabi kabi raston ko nahi !!

  khud ko badal lena he behter hota hai !!

 

Kitni ajeeb hoti hai insan ki fitrat,

Nishaniyon ko mehfuz rakh kr insan kho deta hai..!

“Kisi k pass rehna ho tu, thoda dur rehna chahiye”

Koi lafzon k liye betha raha,

kisi ne ankhein parh li..!

“Unn dilon ko sakoon dy Ya Rab,

Jinka haal tere siwa koi nahi janta..!”

“Kitna kuch muskura k, seh gya ye Dill”

Or phr kuch yun huwa,

apni he tasweer py dill aa gya

Log deewany hain bnawat k

hum saadgi le kr kahan jayein..!

“Tum tou samjhay nahi, phir meine khud ko smjha liya”

Pagal hona bhi zaruri hai zindagi mein,

Smjhdar log khul kr hansty kahan hain..!

! کچھ صلے اس جہاں کے لئے نہیں ہوتے

کہنے کو ساتھ اپنے دنیا ایک چلتی ہے

سفر روز کا ہے ،اور جانا کہیں بھی نہیں

سمجھتا کوئی نہیں ، سمجھاتا ہر کوئی

کیا کوا مستقبل کے بارے میں جانتا ہے؟

0
quote sparks

 

کیا کوا مستقبل کے بارے میں جانتا ہے؟

کوے کے بارے میں کئی قسم کے انکشافات اور گمان کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ آپ سبھی نے اکثر سنا ہو گا کہ کوا آنے والے وقت کو پہلے سے جان لیتا ہے۔ اور اگر کوے گھر کی چھت پر یا گھر کی دیوار پر آکر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں یا جھگڑنے لگ پڑیں۔ تو اس سے اس بات کا گمان کیا جاتا ہے کہ اس گھر پر کوئی برا وقت آنے والا ہے۔ کیونکہ کوؤں کا ایک دوسرے سے لڑنا جھگڑنا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔

اسی طرح اگر دوپہر سے پہلے کوا آپ کے گھر کی دیوار پر یا چھت پر اکیلا بولنا شروع کر دیں۔ تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ کے لیے خوش خبری ہے آپ کی دولت میں اضافہ سکتا ہے، آپ کے روزگار میں اضافہ ہو سکتا ہے، آپ کو خزانہ مل سکتا ہے، آپ کو کوئی بڑی کامیابی مل سکتی ہے یا بعض لوگ یہ بھی گمان کرتے نظر آتے ہیں کہ اس گھر میں کوئی مہمان آنے والا ہے۔

اگر کوئی کوا اچانک منہ میں روٹی کا ٹکڑا لیے نظر آ جائے تو سمجھیں کہ آپ کی کوئی بڑی خواہش پوری ہونے والی ہے۔ اگر کوا کسی بھی آدمی کے سر پر بیٹھ کر چونچ مار دے تو اس کے دن اچھے آنے والے ہوتے ہیں۔ اور اگر کوا اس کے سر پر بیٹھ جائے تو اس کے لیے برا وقت قریب ہوتا ہے۔

ان تمام باتوں میں کس حد تک صداقت ہے۔ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا فرمایا ہے۔ اور یہ باتیں پھیلائی کیوں گئی ہیں کیونکہ گاؤں میں اکثر لوگ ان باتوں پر بے حد یقین کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ ان باتوں کا آپکو کس نے بتلایا تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگوں نے آزمایا ہوا ہے یہ حقیقت ہے ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہیں پر ایک نقطۂ نظر آپ سبھی کہ ساتھ یہ بھی شیئر کرتے چلیں کہ جیسے کئی لوگوں کا یہ گمان ہے کہ ہمارے بزرگوں کا آزمودہ ہے یا ہمارے بزرگوں نے یہ بات کہی تو سچ کہی۔ اس بارے میں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ کفار دین حق کا پیغام سن کر اسے اس لیے جھٹلا دیتے تھے کہ ہمارے باپ دادا اس بات پر عمل کرتے تھے۔ تو ہم بھی یہی کریں گے اور دیں حق کو جھٹلا دیتے تھے حلانکہ وہ لوگ سرا سر گمراہی کے راستے پر تھے۔

ویسے تو اور بھی بہت سارے پرندے ہیں۔ جو گھروں پر آتے ہیں تو زیادہ تر لوگ کوے کے بارے میں ہی ایسے سوالات کیوں کرتے ہیں۔ ان سب سوالوں کے جوابات آپ سبھی کے ساتھ شیئر کرنے سے پہلے۔ آپ کے ساتھ کوے کی ہسٹری آپ سبھی کے ساتھ شیئر کرتے چلیں کہ آخر اس پرندے کے کی ہسٹری کیا ہے۔ جس سے آپ کے لیے آج کے ٹاپک کو سمجھنا اور بھی آسان ہو جائے گا۔

کوا بہت چالاک پرندہ ہوتا ہے اس کی نظر بہت تیز ہوتی ہے۔ جو اسے خوراک اور دشمنوں سے آگاہ کرتی ہے یہ کوا ہی وہ واحد پرندہ ہے۔ جس نے انسان کو مردہ دفن کرنا سکھایا۔ انسان کی لاش کو مٹی میں دفنانا سکھایا۔ اور یہ وہ پرندہ ہے جسے حضرت نوح علیہ السلام نے سب سے پہلے زمین کا جائز لینے کے لیے کوے کو بھیجا۔ لیکن یہ اس کی بدقسمتی کہیں یا کچھ اور جب اس نے زمین پر مردار دیکھا۔ تو اسی کو کھانے بیٹھ گیا یہی وجہ ہے کہ اسے خوف کی بددعا دی گئی۔ اور اسی وجہ سے یہ انسانی آبادی سے ہراساں رہتا ہے انسانوں سے چوکنا رہتا ہے۔

تو دوستو یہ تمام تر باتیں کہ کوا مسقبل دیکھ سکتا ہے یا اس کے کائیں کائیں کرنے سے کسی کو فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ تو آپ سبھی کو بتاتے چلیں کہ اسلام میں ان تمام تر باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ موجودہ دور میں پاکستان میں ان باتوں پر ابھی بھی یقین کیا جاتا ہے۔ اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو بد شگونی کی علامت کہہ دیا جاتا ہے۔

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بد شگونی شرک ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا اور ہم میں سے ہر ایک کو کوئی نہ کوئی وہم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالی توکل کی برکت سے اسے دور کر دیتا ہے۔

آخر میں آپ کو ایک بات بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ صرف اپنے اللہ پر یقین کامل کر لیں مکمل توکل رکھیں اور جو کچھ بھی ہوتا ہے کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ اللہ ہی کی طرف سے ہو گا۔ جب آپ کا یقین پختہ ہو جائے گا تب انشاءاللہ آپ ان سب چیزوں توہم پرستی, بدشگونی, بداعتقادی سے انشاءاللہ نکل جائیں گے. یقین کریں زندگی ہلکی پھلکی محسوس ہونا شروع ہوجائے گی. جس کی شرط صرف یہ ہے کہ رب ذوالجلال پر مکمل اعتقاد یقین اور توکل رکھیں

ظالم باپ اور اس کی بیٹی کا واقعہ

2
quote sparks

 

ظالم باپ اور اس کی بیٹی کا واقعہ

دور جہالت کی بات ہے کہ ایک بڑھے شخص نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا کے ساتھ محبت کرتے ہوئے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گی۔ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔

سوچنے لگا کہ کس طرح بے دردی سے میں نے اپنے پیارے جگر کو صرف دور جہالت کے رسم و رواج کی بنا پر زندہ درگور کر دیا تھا۔ یہ معامله دیکھ کر نبی اکرم صلی اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آخر کیا داستان ہے؟

انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ میری بیوی حاملہ تھی۔ ان دنوں میں ایک سفر پہ گیا ہوا تھا۔ جب کافی عرصے بعد پلٹا تو اپنے گھر میں ایک بچی کو کھیلتے ہوئے دیکھا اور بیوی سے پوچھا کہ یہ بچی کون ہے؟ تو بیوی نے کہا یہ ہماری بیٹی ہے۔

پھر اس نے کسی نامعلوم خوف کے تحت التجا آمیز لہجے میں کہا “ذرا دیکھو تو سہی کس قدر پیاری بچی ہے۔ اس کے وجود سے گھر میں کتنی رونق ہے۔ یہ اگر زندہ رہے گی تو تمہاری یادگار بن کر تمہارے خاندان اور قبیلے کا نام زندہ رکھے گی۔

میں نے گردن جھکا لی اور بیوی کو کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن لڑکی کو بغور دیکھتا رہا۔ لڑکی کچھ دیر تو اجنبی نگاہوں سے مجھے دیکھتی رہی۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے لپٹ گئی۔ میں نے بھی جذبات کی روح میں اس کو آغوش میں بھر لیا اور پیار کرنے لگا۔

کچھ عرصہ ایسے ہی گزرا کہ لڑکی آہستہ آہستہ بڑی ہوتی رہی اور کافی ہوشیار بن گئی۔ جب وہ اپنی بلوغت کے قریب پہنچ گئی۔ تب اس کی ماں کو میری طرف سے بالکل اطمینان ہو چکا تھا۔ میرا رویہ بھی بیٹی کے ساتھ محبت آمیز تھا۔

ایک دن میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ ذرا اس کو بنا ایک قبیلے کی ایک شادی میں اسے لے جاؤں گا۔ ماں بیچاری خوش ہو گئی اور جلدی سے بیٹی کو سجا سنوار کر تیار کر دیا۔

میں نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور گھر سے روانہ ہو گیا۔ ایک غیر آباد بیابان پر پہنچ کر پہلے سے تیار شدہ ایک گھڑے کے قریب میں کھڑا ہو گیا۔ لڑکی بڑی خوشی کے ساتھ اچھلتی کودتی چلی آ رہی تھی۔ میرے قریب آ کر رک گئی اور بڑی معصومیت سے سوال کیا۔

بابا یہ گڑھا کس کے لیے ہے؟ میں نے سپاٹ لہجے میں اس سے کہا کہ اپنے خاندانی رسم و رواج کے مطابق میں تم کو اس میں دفن کر دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ تمہاری پیدائش سے ہمارے خاندان اور قبیلے کو جو ذلت و رسوائی ہوئی ہے اس سے نجات مل جائے۔

لڑکی کو صورتحال کا اندازہ ہوا تو اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور قبل اس کے کہ اس کی طرف سے کسی ردعمل کا اظہار ہو۔ میں نے اس کو گڑھے میں دھکیل دیا۔

لڑکی روتی رہی اور گڑگڑاتی رہی۔ لیکن مجھ پر اس کے فریاد کا کوئی اثر نہ ہوا۔ میں نے گڑھے کو مٹی سے بھر دیا۔ اگرچہ آخری وقت تک وہ ہاتھ اٹھائے۔ مجھ سے زندگی کی بھیک مانگتی رہی۔ التجا کرتی رہی۔ لیکن افسوس میں نے اپنے دل کے ٹکڑے کو زندہ درگور کر دیا۔

لیکن اس کی آخری التجا بھی میرے کانوں میں لوے ٹپکاتی رہتی ہے کہ بابا تم نے مجھے تو دفن کر دیا۔ لیکن میری ماں کو نہ بتانا۔ کہہ دینا کہ میں بیٹی کو اپنے قبیلے میں چھوڑ آیا ہوں۔

یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آغوش میں جناب فاطمۃ الزہرا علیہ السلام بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہونٹوں پر یہ جملے جاری ہو گئے کہ “بیٹی تو رحمت ہے اور پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا میں فاطمہ کو دیکھ کر اپنے مشامِ جاں کو بہشت کی خوشبو سے معطر کرتا ہوں۔ یا اللہ میں تجھ سے موت کے وقت آرام اور راحت اور قیامت کے حساب و کتاب کے وقت عفو و مغفرت کا طالب ہوں”۔

بیٹیاں اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہیں۔ ان کی قدر کیجیے اور یہ آپ لوگوں کے گھروں میں کچھ دن کے مہمان ہوتی ہیں۔ انہوں نے آپ کا گھر چھوڑ کے چلے جانا ہوتا ہے۔ لہذا ان سے محبت کیجیے۔ ان سے پیار کیجیے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیٹی فاطمۃ الزہرا سلام‌ اللہ علیہا سے بہت محبت کیا کرتے تھے۔

بادشاہ کو درویش کی ایک خوبصورت نصیحت

0

 

بادشاہ کو درویش کی ایک خوبصورت نصیحت

پرانے وقتوں کی بات ہے کہ ایک ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ خوشحالی کے دن تھے۔ ایک دن بادشاہ کی ملاقات ایک درویش بزرگ سے ہوئی۔ بزرگ بہت ہی نیک اور پرہیزگار تھا۔

بادشاہ ان سے بہت عزت سے پیش آیا اور ملاقات کے آخر میں ان سے فرمائش کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز, تعویذ, وظیفہ وغیرہ لکھ دیں۔ جو انتہائی مشکل وقت میں میرے کام آئے۔ بزرگ خاموش رہے۔ لیکن بادشاہ کا اسرار بڑھا۔

تو انہوں نے ایک کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ لکھ کر دیا اور کہا کہ اس کاغذ کو اس وقت کھولنا جب تم سمجھو کہ بس اب اس کے آگے تم کچھ نہیں کر سکتے یعنی اس کاغذ کو انتہائی مشکل وقت میں کھولنا۔

قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ کچھ ہی عرصے بعد اس ملک پر حملہ ہو گیا اور دشمن کی فوج نے بادشاہ کی فوج کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ بادشاہ کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے اور وہ بھاگ کر کسی جنگل کے غار میں چھپ گیا۔

دشمن کی فوجیں اس کے پیچھے تھی اور وہ تھک کر اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر اچانک اس کے ذہین میں درویش بابا کا دیا ہوا کاغذ یاد آیا۔ اس نے اپنی جیبیں ٹٹولی، تو وہ کاغذ خوش قسمتی سے اس کے پاس ہی تھا۔

سپاہیوں کے جوتوں کی آہٹ اس کے قریب آتی سنائی دے رہی تھی۔ اب اس کے پاس کاغذ کھولنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ جب اس نے کاغذ کھولا تو اس پر لکھا ہوا تھا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔

بادشاہ کو بہت غصہ آیا کہ بزرگ نے میرے ساتھ یہ کیا کھیل کھیلا ہے۔ لیکن افسوس وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے تحریر کو کئی بار پڑھا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ درویش نے یہ کیا لکھا ہے اور یہ کیوں لکھا ہے؟

بالآخر اس نے اپنی تلوار پکڑی اور سپاہیوں کا انتظار کرنے لگا۔ سپاہی آئے تو اس نے مقابلہ کیا اور وہ بچ نکلا۔ اس کے بعد کئی مدت تک بادشاہ بہت خوار ہوا۔ کافی سال وہ اس مصیبت کو جھیلتا رہا۔

آخر کار اس نے دوبارہ ہمت کی اور اپنی فوج اکٹھی کرنا شروع کر دی۔ کافی سالوں کی محنت کے بعد اس نے اپنی فوج اکٹھی کر لی اور دوبارہ سے اس ملک پر حملہ کر دیا اور خوش قسمتی سے اس جنگ میں اس کو فتح نصیب ہوئی اور وہ ایک بار پھر اس سلطنت کا بادشاہ بن گیا۔

اس کی بہادری کے قصے دور دور تک مشہور ہو گئے اور رعایا میں اس کا خوب تذکرہ ہوا۔ اس کے دربار میں اور دربار سے باہر بھی لوگ صرف اپنے بہادر بادشاہ کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ اتنا بول بالا دیکھ کر بادشاہ کے دل میں غرور پیدا ہوا اور وہ اپنی شجاعت پر اور سلطنت پر تھوڑا مغرور ہوا ہی تھا کہ اچانک اس کے دل میں بزرگ کا لکھا ہوا فقرہ یاد آیا کہ “یہ وقت بھی گزر جائے گا”۔

اسی لیے کہتے ہیں کہ وقت جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مشکل وقت میں صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنے اچھے وقت میں اپنے آپ کو تکبر سے بچائیں۔ کیونکہ وقت جیسا بھی ہو اچھا ہو یا برا ہو گزر جاتا ہے۔