ایک قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا جس نے اللہ کے عذاب کو برداشت کیا اور اللہ نے ان کی شکلیں بندر کی بنا دیں۔ یہ قوم کون سی تھی اور انہوں نے کون سا گناہ کیا تھا جس کی پاداش میں اللہ نے انہیں بندر بنا دیا؟ اور وہ کتنے دن تک بندر بن کر جئے؟ اور ان کی موت کتنی دردناک تھی؟ جب یہ لوگ بندر بن گئے تو انہوں نے اپنے عزیزوں سے کیا کہا؟ کیا آج بھی ان بندروں کی نسل موجود ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات قرآن و حدیث کی روشنی میں موجود ہیں۔
یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے کا ہے۔ ان کے لوگوں کا مسکن ایک گاؤں تھا جس کا نام ایلا تھا اور وہ سمندر کے کنارے آباد تھے۔ ان کی آبادی تقریباً ستر ہزار تھی۔ یہ قوم خوشحال تھی اور اللہ کی فرمانبردار تھی۔ اللہ نے ان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا تھا۔ ہر طرف سرسبز باغات تھے، ہر طرف سبزہ تھا اور اللہ کی بے شمار برکات ان پر نازل تھیں۔
چونکہ حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم سمندر کے کنارے آباد تھی، اللہ نے ان پر خصوصی کرم کیا تھا کہ سمندر کے کنارے بے شمار مچھلیاں آتی تھیں۔ لوگ ان مچھلیوں سے کاروبار کرتے اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن جب یہ قوم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں خوش ہو گئی تو اس نے اللہ کی نافرمانی شروع کر دی۔ اور ہر طرح کے گناہوں میں مبتلا ہو گئی۔
پھر ایک دن اللہ نے اس قوم کو آزمائش میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور حضرت داؤد علیہ السلام کو وحی بھیجی کہ وہ اپنی قوم کو بتائیں کہ ہفتے کے دن مچھلیوں کا شکار کرنا حرام ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنی قوم کو یہ حکم پہنچایا اور اس کے بعد اس قوم کی تباہی کا آغاز ہوا۔
حضرت داؤد علیہ السلام نے قوم کو بتایا کہ اللہ نے انہیں حکم دیا ہے کہ وہ ہفتے کے دن شکار نہ کریں، کیونکہ اس دن سمندر سے مچھلیوں کا آنا بے شمار ہوتا تھا، لیکن باقی دنوں میں کم مچھلیاں ملتی تھیں۔ اس حکم سے قوم پریشان ہو گئی، کیونکہ ان کا گزارہ مچھلیوں کے شکار پر تھا۔ اس پر شیطان نے ان کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ سمندر سے چھوٹے دریا نکالے جائیں جن میں مچھلیاں آ کر پھنس جائیں اور انہیں بعد میں شکار کیا جائے۔
یہ شیطانی چال بہت سے لوگوں کو پسند آئی اور انہوں نے ہفتے کے دن شکار جاری رکھا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے ان کو بار بار اللہ کے عذاب سے ڈرایا، لیکن یہ لوگ باز نہ آئے اور کھلم کھلا اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے رہے۔ پھر حضرت داؤد علیہ السلام نے غصے میں آ کر ان لوگوں پر لعنت بھیجی۔
اسی دوران اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوا اور وہ سب بندر بن گئے۔ ان کے گھر والوں نے ان بندروں کو پہچانا اور وہ ان کے کپڑوں کو سونگھتے رہے لیکن وہ کچھ نہ بول سکے۔ یہ 1200 لوگ تھے جنہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو تین دن تک زندہ رکھا، لیکن وہ نہ کچھ کھا سکے اور نہ پیا، اور آخرکار تین دن کے اندر وہ سب مر گئے۔ ان لوگوں کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لئے وہ لوگ محفوظ رہے جو اس گناہ کو روکتے رہے یا جنہوں نے خاموشی اختیار کی تھی۔
آج کے بندر کیا وہی ہیں جو حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے بندر بنے تھے؟ اس بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے اور وہ اس قوم کو ہلاک کر دیتا ہے تو اس قوم کا نسلوں تک کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ لہٰذا آج کے بندر حضرت داؤد علیہ السلام کی قوم کے نہیں ہیں، کیونکہ وہ قوم تین دن بعد ہی ہلاک ہو گئی تھی اور ان کا وجود ہمیشہ کے لئے مٹ گیا۔
اللہ ہم سب کو اپنی ہدایت دے اور اس کی رضا کے راستے پر چلنے کی توفیق دے۔