Who Is Allama Iqbal?
Allama Muhammad Iqbal (1877–1938) is one of the most influential figures in South Asian history, known for his powerful poetry, philosophical insights, and political activism. Revered as the “Spiritual Father of Pakistan,” Iqbal played a central role in inspiring the creation of the nation and is considered a guiding light for intellectual, cultural, and political thought across the Muslim world.
Early Life and Education of Allama Iqbal
Born in Sialkot, in present-day Pakistan, Iqbal was a brilliant student with an insatiable curiosity for learning. He studied in Europe, earning degrees in law and philosophy from Cambridge, and later, a doctorate from the University of Munich. During his time in Europe, Iqbal encountered Western philosophical thought, which he blended with Islamic teachings to develop a unique worldview that emphasized spiritual awakening and intellectual growth.
کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے، ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
خودی کو کر بلند اتنا، کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
دل سے جو بات نکل تی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
سایۂ خنجر میں اس کی پرورش ہوتی ہے غازؔی کی
نہنگ وں کے نشیمن میں جواں مردی ہے غازی کی
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تُو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تُو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا
عام دیدارِ یار ہوگا
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہین کا جہاں اور
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ستم شعار سے، جفا پیشہ دشمنوں سے نہ ڈر
کہ شاہینوں کا مسکن ہمیشہ پہاڑوں کی چٹانوں میں ہے
ہے ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
سجدہ خالق بھی ہے، اِبلیس بھی ہے، بندگی اپنی اپنی
مسجدوں میں نمازی ہے، دلوں میں خدا کوئی نہیں
گزر گیا وہ زمانہ، چلے گئے وہ لوگ
جو کہہ گئے تھے کہ فطرت کو جگا سکتے ہیں